محبت کا آخری وعدہ (The Final Promise of Love)
ایک چھوٹے سے گاؤں میں، جہاں مٹی کی خوشبو ہوا میں بسی ہوئی تھی اور شام کی روشنی سنہری کھیتوں پر چھا جاتی تھی، رمشا اور ظہیر کی کہانی کا آغاز ہوا۔ رمشا ایک کسان کی بیٹی تھی، معصوم اور خوبصورت، اور ظہیر گاؤں کے زمیندار کے گھر کا اکلوتا بیٹا، تعلیم یافتہ اور پرکشش۔ دونوں کی دنیا مختلف تھی، لیکن دلوں نے کوئی حد نہ مانی۔
رمشا اور ظہیر اکثر گاؤں کے کنویں کے پاس ملتے، جہاں رمشا پانی بھرنے جاتی تھی۔ وہاں وہ گھنٹوں ایک دوسرے سے باتیں کرتے، خواب بُنتے، اور محبت کے وعدے کرتے۔ ظہیر نے رمشا سے وعدہ کیا کہ وہ اپنے خاندان کو ان کی محبت کے لیے راضی کرے گا اور ایک دن اسے اپنے ساتھ لے جائے گا۔
تقدیر کی سازش
ایک دن، ظہیر کے والد نے اس کی شادی ایک امیر زمیندار کی بیٹی سے طے کر دی۔ جب ظہیر نے اپنے والدین کو رمشا کے بارے میں بتایا، تو انہوں نے سختی سے منع کر دیا۔ “تم ایک کسان کی بیٹی کو ہماری عزت کا حصہ نہیں بنا سکتے!” ظہیر کے والد نے کہا۔ ظہیر کو گاؤں سے باہر پڑھائی کے بہانے بھیج دیا گیا تاکہ وہ رمشا کو بھول جائے۔
رمشا گاؤں میں رہی، ظہیر کے وعدے کے سہارے۔ دن مہینوں میں بدلے، اور مہینے سالوں میں۔ ظہیر کی کوئی خبر نہ آئی، اور رمشا کا انتظار ختم نہ ہوا۔ گاؤں کے لوگ اس کا مذاق اڑاتے تھے، لیکن وہ ہمیشہ کہتی، “ظہیر نے مجھ سے وعدہ کیا ہے۔ وہ واپس آئے گا۔”
ملاقات کا لمحہ
دس سال بعد، ظہیر شہر سے واپس آیا۔ وہ کامیاب تھا، لیکن دل میں ایک خالی پن تھا۔ گاؤں آتے ہی اسے رمشا کی یاد ستانے لگی، اور وہ اس جگہ گیا جہاں وہ ہمیشہ ملا کرتے تھے۔ وہاں پہنچ کر اسے ایک بوڑھا شخص ملا، جس نے بتایا کہ رمشا آج بھی ہر شام کنویں کے پاس آتی ہے، اس امید کے ساتھ کہ ظہیر اسے لینے آئے گا۔
ظہیر کے دل پر جیسے پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ وہ رمشا سے ملنے دوڑا۔ جب وہ پہنچا، تو اس نے رمشا کو دیکھا۔ وہ پہلے کی طرح خوبصورت تھی، لیکن اس کی آنکھوں میں برسوں کی اداسی جھلک رہی تھی۔ ظہیر کو دیکھ کر رمشا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔
“میں نے وعدہ نبھایا، ظہیر۔ میں نے تمہارا انتظار کیا۔ تم کہاں تھے؟” رمشا نے ٹوٹے دل کے ساتھ پوچھا۔
ظہیر کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اس نے رمشا سے کہا، “میں نے تمہیں کبھی بھلایا نہیں، لیکن میں کمزور تھا۔ میں نے حالات کے آگے ہار مان لی۔”
ادھورا انجام
ظہیر نے رمشا کو اپنی محبت کا یقین دلانے کی کوشش کی، لیکن رمشا نے مسکرا کر کہا، “محبت کبھی ختم نہیں ہوتی، ظہیر۔ لیکن کچھ چیزیں وقت کے ساتھ ختم ہو جاتی ہیں، جیسے انتظار۔”
اس رات رمشا ہمیشہ کے لیے گاؤں چھوڑ کر چلی گئی، ظہیر کو اس کے فیصلے کی گونج کے ساتھ چھوڑ کر۔ وہ اب بھی اپنی محبت کے ساتھ زندہ تھا، لیکن ہمیشہ اس موقع کے ضائع ہونے پر افسوس کرتا رہا۔
کہانی کا سبق
محبت سچی ہو تو کبھی ختم نہیں ہوتی، لیکن وقت پر کیے گئے فیصلے زندگی بدل سکتے ہیں۔